کرنسی نوٹ کی فقہی حیثیت اورمُروّجہ اسلامی بینکاری میں کرنسی سلم : ایک فقہی تجزیہ (The Juristic Status of Currency Note and Currency Salam in Contemporary Islamic Banking: A Juristic Analysis)
FIKR-O-Nazar, Vol-52, Issue-4, p: 63-106
48 Pages Posted: 13 Jun 2016
Date Written: June 30, 2015
Abstract
Urdu Abstract:سلم ایسی بیع ہے جس میں پیشگی طور پرچیز کی مکمل قیمت ادا کر دی جاتی ہے۔جبکہ چیز کی حوالگی طے شدہ مدت کے بعد قرار پاتی ہے۔عقد کرتے وقت چیز کی خصوصیات، اوصاف اور مقدار بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس عقد میں چیز کو ایڈوانس میں فروخت کیا جاتا ہے ۔جبکہ ابھی وہ تیار بھی نہیں ہوتی۔اسلام کے اقتصادی نظام میں کاروباری حاجات کوبہت اہمیت دی گئی،اور اسی اہمیت کے پیشِ نظر ان حاجات کو مقاصد ِ شریعت کی روشنی میں جانچا گیا اور پھر یہ رخصت دی گئی کہ بیع کی مذکورہ تین بنیادی شرائط سے سلم اور استصناع کے عقودمستثنیٰ ہوں گے ۔ کیونکہ اقتصادی امور میں یہ حاجات عمومی طور پر بہت اہم ہوتی ہیں کہ اگر ان کا خیال نہ کیا جاتا تو انسان کو بہت سارے پیداواری امور میں حرج اور مشقت ہوتی اور پیداوری عمل کا نظام تہہ وبالا ہو کر رہ جاتا ۔ فقہا کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ اجناس، مثلی اشیا اور جو چیز بھی آج قیمتی ہونے کے باوجود مثلی بن چکی ہیں۔ اُن میں حاجت کی بنیاد پر سلم کی اجازت ہے۔ لیکن کرنسی سلم کے معاملے پر فقہا میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا کرنسی کوبھی مسلم فیہ بنایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ ماضی میں کرنسی سلم کے موضوع پر زیادہ بحث نہیں ہوئی۔ موجودہ زمانے میں چونکہ مالی معاملات شہروں سے نکل کر بین الاقوامی طے پارہے ہیں ۔بین الاقوامی تجارت میں افراد اور ادارے بھی اب براہ راست ایک دوسرے سے معاملات کرنے کی بجائے بینکوں کی مدد سے اپنے لین دین اور ادائیگیوں کے معاملات طے کرتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ معاملات میں پیچیدگیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ معاملات کی یہ پیچیدگیاں حل طلب ہوتی ہیں۔مختلف فقہا اپنی اپنی فقہی بصارت کے مطابق وقتا فوقتا ان پیچیدگیوں کے شرعی حل پیش کرتے رہتے ہیں۔ کرنسی سلم کو بھی ایسی ہی معاملاتی پیچیدگیوں کے شرعی حل کے طور پر متعارف کرایا گیاہے۔ کرنسی سلم کی مشروعیت کرنسی نوٹ کی فقہی حیثیت پر مبنی ہے۔ اس لیے کرنسی نوٹ کی فقہی حیثیت کا تعین کیے بغیر بیع سلم کی شرعی و قانونی حیثیت کا تعین نہیں ہو سکتا۔اسی وجہ سے اس مقالہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ کرنسی نوٹ کی ترویج سے متعلق مختصر تاریخی جائزہ لیتے ہوئے مختلف ادوار کےفقہا کی آراء اور دلائل کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے اور پھر جدید اقتصادی و مالیاتی تناظر میں کرنسی کی حیثیت کا تعین کرکےاسلامی بینکاری میں مروجہ کرنسی سلم کی عملی صورت کا فقہی جائزہ لیا جائے۔
English Abstract: Salam is a type of sale in which full price is paid in advance while the subject matter of sale is to be delivered at a specified time in the future. The seller gets the money needed in exchange of an obligation to deliver the subject matter later. The majority of jurists don’t allow Salam in gold and silver, currencies or monetary units. Since, there are few jurists who have considered it legitimate. They allow Islamic banks to deal in Salam currencies as an alternative of bill discounting. They consider currency notes equal to fulus (metal coins) in which Salam is said permissible according to majority of fuqaha. They don’t consider the exchange of currencies as saraf sale which requires the simultaneous payment of counter values. Therefore, they allow the delay in one counter value with taking possession on the other. After describing the brief history of currency note, this article analyzes the different theories regarding fiqhi status of currency note, whether it is equal to fulus or not or it is like something other e.g. gold coins. It also proves that exchange of currencies is a saraf sale and considering it equal to fulus is wrong analogy. Finally, it concludes that by function Currency note has become equal to gold coins in which Salam is prohibited and permitting Salam in it is like opening the door of riba.
Note: Downloadable document is in Urdu.
Keywords: Currency Note, Currency Salam, Money in Islamic Financial System
Suggested Citation: Suggested Citation